2. تم میرے ہو
وہ کالج کے زمانے سے ہی بہت اچھی ہاکی کھیلتا تھا۔ اگر عناس لالہ اسے اکیڈمی نہ بھیجتے تو شاید آج وہ قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہا ہوتا۔ اتنی سخت ملازمت میں بھی وہ اپنے اس شوق کو ختم نہیں کر پایا تھا۔ اس کے جیسے ہاکی کے کئی شوقین اور جنونی لڑکوں نے دو ٹیمیں بنا رکھی تھیں۔ فرصت کے دنوں میں وہ میچ رکھ لیا کرتے تھے۔ فائنل سے پہلے کافی پریکٹس بھی کی جاتی تھی۔
جس دن ان کے سالانہ یا ماہانہ میچ شروع ہوتے تھے۔ تقریباً پورے بیس کے شائقین بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے وہ اور جازم اب محنت کے بعد میدان میں آئے تھے۔ مگر اس میچ میں قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
عبد جرار کا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے تھا۔ مگر اب اس کے پاس صرف تین مربع زمین تھی۔ عبد کے والد کا انتقال ہو چکا تھا۔
اس کی ماما تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔
انہوں نے اپنے بیٹوں کے مستقبل کی خاطر زمین بیچ کر شہر میں دو منزلہ مکان لے لیا تھا اور خود ایک پرائیویٹ کالج میں پڑھانے لگی تھیں۔ ان کی تمام تر توجہ اپنے بیٹوں کی طرف تھی۔ بیگم عدیلہ جرار نے اپنے بیٹوں کی زندگی بنانے کیلئے بے حد جدوجہد کی تھی۔ اپنے بچوں سے انہیں بے انتہا محبت تھی۔ اسی طرح عناس اور عبد بھی ماں کے ہر فیصلے اور ہر بات کو حکم کا درجہ دیتے تھے۔
بیگم عدیلہ کی ایک بیوہ بہن بھی ان کے گھر میں رہائش پذیر تھیں۔ عاشرہ کی تین بیٹیاں تھیں۔ مونسہ‘مونا اور مینا… ان کی رہائش اوپری منزل پر تھی۔ مونسہ ماسٹرز کر چکی تھی اور اب ایک اچھی ساکھ رکھنے والے اسکول میں پڑھاتی تھی۔ مونا نے بی اے کر لیا تھا۔ ان دنوں انگریزی زبان سیکھنے کے خبط میں مبتلا تھی۔ سب سے چھوٹی مینا تھی۔ جو کہ فرسٹ ایئر کی طالبہ تھی۔
مختلف تعلیمی اداروں میں عبد کو بے شمار دوستوں کا ساتھ ملا تھا‘مگر جو دوستی عناس لالہ اور اس کے درمیان تھی۔ اس کی کہیں مثال نہیں ملتی تھی۔ عبد میں گویا عناس کی جان تھی۔ عبد کو معمولی سی تکلیف کیا ہوتی تھی‘اس کا دل پہلے سے ہی اسے سگنل پہنچا دیتا تھا۔ وہ اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتا تھا۔ ایک مرتبہ چھوٹے سے ایکسیڈنٹ میں عبد معمولی سا زخمی ہو گیا تھا مگر بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے خون بہنا بند نہیں ہو رہا تھا۔
تب عناس گویا پاگل ہونے لگا تھا۔ وہ ڈاکٹروں سے چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ ”میرے جسم کا سارا خون نکال کر عبد کو لگا دو۔ اگر اسے کچھ ہو گیا تو میں زندہ نہیں رہ پاؤں گا۔“
شاید اس لئے بھی یہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے زیادہ قریب آ گئے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ان کے بہت بچپن میں ہو گیا تھا‘تب ماما نے عناس کو ایک بات گویا گھول کر پلا دی تھی۔
”عبد کے تم بھائی نہیں ہو‘باپ بھی ہو۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر عبد کو تنہا مت چھوڑنا… عبد میرا دل ہے۔“ ماما گویا اس سے وعدہ لے رہی تھی۔
2. تم میرے ہو
”اور عبد میرا بھی دل ہے۔“ عناس کے دل نے بھی ماں کی بات پر مہر لگا دی تھی۔ بہت بچپن سے ہی عبد کو محبتیں سمیٹنے کی عادت ہو گئی تھی۔ ماما اور عناس سے لے کر خالہ اور مینا تک سب ہی اسے ہتھیلی کا چھالا بنائے رکھتے تھے۔
وہ جب بھی اکیڈمی سے گھر واپس آتا۔ گویا پورے گھر میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی۔ سب ہی یوں مستعد ہو جاتے گویا کسی کمانڈر کی آمد کی اطلاع مل گئی ہو۔
مونسہ کچن میں گھس جاتی تھی۔ مونا اور مینا اس کا کمرا صاف کرنے کیلئے بھاگ اٹھتی تھیں۔ خالہ اس کے کپڑے استری کرتیں اور عناس ای کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کا بھی خیال رکھتا۔
عناس ذاتی کلینک بہت کامیابی سے چلا رہا تھا۔
عناس نے ایم بی بی ایس لاہور سے کیا تھا۔ اس کے علاوہ ڈپلومیٹ ان ڈرماٹالوجی میں اعلیٰ تعلیم انگلینڈ سے اور پھر چار سال پہلے کاسمیٹک سرجری میں بھی امریکہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ بے حد قابل اور لائق فائق سرجن تھا۔ اپنی فیلڈ میں خاصی شہرت رکھتا تھا مگر ماما کے ہزار مرتبہ کہنے کے باوجود ابھی تک تنہا تھا۔ نجانے کیوں شادی کے نام سے ہی بدکتا تھا‘حالانکہ چوڑیاں چھنکات بھابھی کو گھر میں لانے کیلئے عبد بھی خاصا بے قرار تھا مگ عناس کی ”نہ“ ابھی تک ”ہاں“ میں نہیں بدلی تھی۔
پچھلے دو دن سے وہ چھٹی کے مزے لوٹ رہا تھا۔ مگر فی الحال تازہ تازہ شکست کا غم ابھی زندہ تھا۔ سو وہ ابھی تک کسی کا سامنا کرنے سے گریزاں تھا۔
وہ اس وقت بھی اپنے کمرے میں موجود تھا اور پروفیسر غفور احمد کی ”پھر مارشل لاء آ گیا“ پڑھنے میں بری طرح سے محو تھا جب دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر کیڈٹ ہارون اندر داخل ہوا۔ وہ لابی میں موجود فون بوتھ کا آپریٹر بھی تھا۔
عبد کا دھیان فوراً اپنے گھر کی طرف چلا گیا۔
”سر! آپ کی کال آ رہی ہے۔“
”کہاں سے؟“ وہ خاموش پڑے سیل کی طرف دیکھ کر بولا۔
”آپ کے بھائی ہیں… اور کہہ رہے ہیں کہ اپنا موبائل آن کریں۔ انہیں کوئی ضروری بات کرنا ہے۔“ ہارون پیغام پہنچا کر باہر کی طرف چلا گیا۔ عبد نے فوراً کتاب بند کرکے سیل فون آن کر لیا۔ ابھی وہ عناس کا نمبر ملانے ہی لگا تھا کہ اسکرین پر ”لالہ کالنگ“ جگمگاتا نظر آ گیا۔
عناس نے چھوٹتے ہی سیل فون کی خاموشی کے متعلق جاننا چاہا تھا۔
”بیٹری لو ہو چکی تھی… اور چارجر ثوب کے قبضے میں تھا۔“ اسے فی الحال یہی بہانہ سوجھا۔
”کوئی اور بہانہ سوچتے… میری ابھی ثوب سے بات ہوئی ہے۔ وہ کہہ رہا تھا‘میچ ہارنے کا سوگ منا رہے ہو۔“ عناس نے اگرچہ اس کا جھوٹ ٹھیک پکڑا تھا‘تاہم سوگ منانے والی بات نے اسے بے حد مشتعل کر دیا تھا۔ اس کا جی چاہا کال مقطع کرکے ثوب کو دو جھانپڑ لگا آئے‘مگر اپنی امن پسند فطرت کے باعث تحمل کا مظاہرہ کرتا رہا۔ ادھر عناس اسے سمجھائے جا رہا تھا۔
2. تم میرے ہو
”میری جان! دل چھوٹا کیوں کر رہے ہو۔ ہار جیت تو زندگی کا لازمی جز ہے۔ تم تو صرف ایک کھیل میں ہارے ہو۔ بھلا ان لوگوں کو دیکھو‘جو دل ہار کر صبر سے بیٹھے ہیں۔ پوری کی پوری متاع لٹا کر پھر بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتے۔“
”لالہ! ایسی بات نہیں ہے۔“ عبد نے کچھ جھنجلا کر وضاحت کرنا چاہی۔ ”یہ ثوب تو میرا ازلی دشمن ہے۔ اگر آپ کے دوست کا بھائی نہ ہوتا تو سچ‘میرے ہاتھوں اب تک شہید ہو چکا ہوتا۔
مجھے نہ کبھی ہار کا اتنا غم ہوا ہے‘نہ جیت کی ڈھیروں خوشی… بس فون ایسے ہی بند کر رکھا تھا۔“
”تو میرے چاند! ایسے فون نہ بند کیا کرو نا… جن کی دھڑکنیں تمہارے دل کے تاروں سے جڑی ہیں‘انہیں کیونکر پریشان کرتے ہو۔ رات سے ماما اور مونسہ وغیرہ سخت پریشان ہیں۔ تم مونسہ اور مونا کے میسیجز کا رپلائی بھی نہیں کر رہے تھے۔
“ عناس نے بہت محبت سے اس کی غلطی کی نشاندہی کی تھی۔
عبد خاصا شرمندہ ہو گیا۔
”سوری لالہ! آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔“
اس نے ندامت سے کہا تھا اور پھر کپڑے اٹھا کر اسٹینڈ کی طرف آ گیا۔
”تم اس وقت کیا کر رہے ہو؟“ عناس یقینا اس کی کھٹ پٹ سے اندازہ لگا چکا تھا کہ صاحب بہادر کچھ کام وغیرہ میں بھی مصروف ہیں۔
”اپنے کپڑے استری کرنے کی کوشش۔ سچ لالہ! جب سے گھر سے باہر نکلنا پڑا ہے۔
سارے ”زنانیوں“ والے کام سیکھ لئے ہیں۔ کبھی کبھی تو بڑا ہی رونا آتا ہے۔ پچھلی مرتبہ ثوب نے میرے کپڑے ”لانڈری“ میں نہیں دیئے تو خود ہی دھونے پڑے۔ ہر شرٹ کو دھوتے ہوئے مونسہ اور خالہ کی بڑی شدت سے یاد آئی تھی۔ آٹھ آٹھ آنسو بہاتے ہوئے ایک ایک موزہ دھویا تھا۔“
عناس کو ہنسی آ گئی۔ ”چلو‘اسی بہانے تمہیں ”خواتین“ کی قدر تو آئی۔
”جناب! ہم تو دل سے قدر کرتے ہیں۔ بس آپ ہی خواتین کی قدر نہیں پہچانتے۔“ وہ گویا مزے سے بولا۔ ”آج اگر شادی کر چکے ہوتے تو میں تین چار پیارے پیارے بچوں کا چاچو ہوتا۔“
”تو پھر تیاری پکڑونا۔ میں تمہیں چاچا بنانے کیلئے تیار ہوں۔“ عناس نے گویا ایک خوشگوار دھماکہ کیا تھا۔ عبد کی ساری بیزاری پل بھر میں اڑن چھو ہو گئی۔
”لالہ! آپ سچ کہہ رہے ہیں؟“ وہ بے حد حیران ہوا۔
”سو فیصد سچ…“ عناس اس کی خوشی پر خود بھی مسرور ہو گیا تھا۔
”کون ہے وہ خوش نصیب؟“
”ڈاکٹر حوریہ… میری کلاس فیلو تھی اور بعد میں ہم دونوں نے تقریباً سال بھر تک میڈیکل کالج میں پڑھایا بھی تھا‘پھر حوریہ انگلینڈ اور میں امریکہ چلا گیا تھا۔ اس پر کچھ گھریلو ذمہ داریاں تھیں‘سو اسی لئے اس نے مجھے بھی کوئی اگلا قدم اٹھانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
2. تم میرے ہو
اب جبکہ وہ اپنے مسائل سے آزاد ہو گئی ہے اور میں بھی اپنا کلینک اسٹیبلش کر چکا ہوں تو پھر سوچا کیوں نہ ماما اور ماما کے لاڈلے کو خوش کر دیا جائے۔“ عناس کے لہجے سے خوشی اور شادمانی کے فوارے پھوٹ رہے تھے۔
”یعنی بندوق میرے اور ماما کے کندھے پر رکھ کر چلانا ہے؟“ عبد نے شرارتی انداز میں کہا۔ ”ٹھیک ہے جی! ہمیں پھر بھی منظور ہے۔ آپ مانے تو سہی۔
“
”گھر کب آؤ گے؟“ عناس اب کچھ سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔
”اس ویک اینڈ پر کوشش کروں گا۔“ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولا۔
”کوشش نہیں کرنا‘ضرور آنا ہے۔ مونسہ کے سسرالی بھی ڈیٹ فکس کرنا چاہ رہے ہیں اور پھر ماما کہہ رہی تھیں‘تم آؤ گے تو حوریہ کے گھر چلیں گے۔“
”بڑی بے چینی ہو رہی ہے۔“ عبد کو اسے چھیڑنے کا موقع مل گیا تھا۔ مزید آدھ گھنٹہ لالہ سے بات کرنے کے بعد وہ بڑے ہی خوش گوار موڈ میں سونے کیلئے بیڈ پر لیٹ گیا۔ ذہن سے رمشا کی فون کال اور جازم کی طرف سے ملنے والی شکست خود بخود نکل گئی تھی۔
................................................................................
2. تم میرے ہو
ویک اینڈ پر جب وہ گھر آیا تو ہمیشہ کی طرح اسے وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا تھا۔ دونوں پورشنز میں گویا رونق اتر آئی تھی۔ خالہ‘مونا‘مینا اور مونسہ نیچے آ گئی تھیں۔ ویسے بھی ان کا کچن ایک ہی تھا۔ ایک ہی جگہ کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ سو کھانے کے اوقات میں بڑی رونق نظر آتی تھی۔
آج کل گھر کے دو بڑوں کی شادیوں کی تقریبات کے منصوبے بنائے جا رہے تھے۔
مونسہ کی شادی کی تمام تر تیاریاں مکمل تھیں… ان لوگوں کو بس سادگی سے نکاح کرنا تھا‘کیونکہ مونسہ کو بیرون ملک اپنے شوہر کے ساتھ چلے جانا تھا۔
گھر آنے کے بعد اس نے مزید تین چھٹیاں لے لی تھیں۔ مونسہ کی رخصتی سے اگلے دن وہ حوریہ کو بھی رسماً انگوٹھی پہنا آئے تھے۔ ماما کو ہونے والی بہو بہت پسند آئی تھی اور عبد بھی لالہ کی چوائس کو سراہے بغیر نہیں رہ سکا تھا۔
حوریہ واقعی تعریف کے لائق تھی۔ وہ اعلیٰ اخلاق کی مالک تھی۔ خالہ اور ماما اتنی اچھی بہو ڈھونڈنے پر عناس کی مشکور‘جنہوں نے انہیں لڑکی ڈھونڈنے کی زحمت سے بچا لیا تھا۔ خالہ تو مسلسل عبد کو چھیڑے جا رہی تھیں۔
”اب عناس کی طرح تم بھی ہماری جوتیوں کو گھسنے سے بچا لینا۔“
”کیوں نہیں خالہ! آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔“ عبد نے فرمانبرداری کے تمام تر ریکارڈز توڑ دیئے تھے۔
”بھائی! لڑکی خود پسند کر لیجئے گا‘مگر شرط صرف اتنی ہے کہ حوریہ بھابھی سے کم نہیں ہونی چاہئے۔“ مونا نے گویا وارننگ دی تھی۔ عبد نے مسکین سی صورت بنا لی۔
”اب میں لالہ جیسا ڈیشنگ تو نہیں کہ کوئی خوب صورت لڑکی مجھے گھاس ڈالے۔“
”جی نہیں‘ہمارے تو دونوں بھائی بہت خوب صورت ہیں… کوئی ایک دوسرے سے کم نہیں۔
“ مینا اس کے کندھے سے جھولتی لاڈ سے بولی۔ یہ سچ تھا کہ خالہ کی تینوں بیٹیوں کو وہ بھائیوں جیسا مان دیتے تھے اور وہ بھی سگی بہنوں سے بڑھ کر ان کا خیال رکھتی تھیں۔ ان دونوں کی موجودگی میں خالہ کو کبھی اولاد نرینہ کی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی۔
عناس کی شادی کی تاریخ طے کرنے کے بعد وہ فوراً اپنی ڈیوٹی پر چلا گیا تھا۔ ان دنوں انہیں خصوصی تربیت دی جا رہی تھی لہٰذا یہ دن خاصے مصروف تھے۔
سات آٹھ گھنٹے مسلسل فضا میں رہنا ہوتا تھا۔ فلائنگ کے دوران وہ بے حد مسحور ہو جاتا تھا۔ کچھ گھنٹوں کیلئے اسے دنیا کا ہر رشتہ اور ہر خواب بھول جاتا۔
ایئر فورس جوائن کرنا صرف عبد کا خواب نہیں تھا بلکہ اس کے ابو اور لالہ کی خواہش بھی تھی۔ اس نے ان دونوں کی خواہش اور… اپنے عشق کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔
فضاؤں کا سینہ چیرنے کے بعد‘اپنا مطلوبہ ہدف حاصل کرکے جوں ہی اس نے زمین کی پتھریلی سطح پر جہاز کے قدم جمائے‘دل و روح اور جسم میں دوڑتے لہو کی گردش پل بھر کیلئے تھم کر رہ گئی۔
2. تم میرے ہو
اپنے کمرے میں آنے کے بعد وہ فوراً ٹھنڈے ٹھار پانی سے شاور لے کر بیڈ پر لیٹ گیا۔ اگرچہ اسے تھکاوٹ محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ تاہم ہر پرواز کے بعد آرام کرنا بے حد ضروری ہوتا تھا۔ جسم کا پورا نظام انہضام الٹ پلٹ ہو کر رہ جاتا تھا۔ اکثر تو جی بھی متلانے لگتا تھا۔ ایسی صورتحال کا سامنا عبد کو کم ہی کرنا پڑتا تھا۔ تاہم ثوب تو لازمی فلائنگ کے بعد ایک چکر ڈاکٹر کی طرف لگا… آتا تھا وہ نازک مزاجی میں کبھی کبھی لڑکیوں کو بھی مات دے دیتا تھا۔
پرواز کے دوران موبائل بند کرکے وہ کمرے میں ہی رکھ جاتا تھا۔ ابھی اس نے لیٹے لیٹے ہی تکیے کے نیچے سے موبائل نکال کر آن کیا تھا کہ اس کی گھنٹی بج اٹھی۔ وہ اسکرین پر نظر آتے نمبر سے نگاہ چرا کر میسیجز پڑھنے لگا۔ لالہ‘مونا اور مینا کے علاوہ ثوب کے دو تین مسیجز تھے۔ اس کے علاوہ جازم کی طرف سے بھی مسیج موصول ہوا تھا۔
”عبو چاند! ابھی سے عید کا چاند بن کر نخرے دکھانے لگے ہو۔
شہزادے! ابھی تو رمضان میں دو تین ماہ باقی ہیں۔ عید تو رمضان کے بھی بعد آئے گی اور تم اپنی امپورٹنس جتا رہے ہو یا پھر شکست کے بعد ہمارا سامنا کرنا بہت مشکل لگ رہا ہے۔“
وہ بلا کا کمینہ تھا۔ سو اپنی کمینگی تو اسے دکھانا ہی تھی۔
ابھی وہ جازم کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا‘جب ایک دفعہ پھر موبائل بجنے لگا۔ اب کے عبد نے کال ریسیو کر لی کیونکہ وہ اچھی طرح… جانتا تھا‘جب تک اس کی کال اٹینڈ نہ کی جاتی۔
وہ مسلسل فون کرتی رہے گی۔
”جہاز یوں اڑاتے ہو‘گویا فضاؤں کو تسخیر کرکے ہی دم لو گے۔“ اس کے موبائل کو کان سے لگانے کی دیر تھی۔ رمشا فوراً شروع ہو گئی۔
”آسمان کا سفر اسی لئے تو کرتے ہیں۔“ اگرچہ وہ اس کی آواز سن کر خاصا بے مزا ہوا تھا تاہم اس کے طنز کا جواب طنز میں دینا بھی ضروری تھا۔
”گھر گئے تھے کیا؟“ اب بڑے دوستانہ انداز میں پوچھا جا رہا تھا۔
وہ چپ ہی رہا۔
”مونسہ کی شادی ہو گئی؟ یہ تو اچھی بات ہے۔ البتہ ایک نئی خبر بھی سنی ہے۔“ رمشا اس کی خاموشی کے جواب میں مسلسل بولے جا رہی تھی۔ وہ جو لب بھینچے اس کی بکواس سن رہا تھا‘ایک دم چونکا۔
”کون سی خبر؟“ اب نجانے محترمہ کو کون سا انکشاف کرنا تھا۔
”عناس کی بات طے ہو گئی۔“ اس کا لہجہ خاصا کٹیلا تھا۔
”تمہیں کیسے پتا چلا؟“ عبد بے حد حیران ہوا۔
”یہ مت پوچھا کرو۔ میری نظر صرف تم ہی پر ہوتی ہے۔“
”کیوں؟ صرف مجھ پر کیوں؟“ وہ قدرے روکھے پن سے بولا
2. تم میرے ہو
”کیونکہ جو بات تم میں ہے‘وہ کسی اور میں نہیں۔“ حاضر جواب تو وہ بلا کی تھی۔ اس بات کے جواب میں وہ بھلا کیا کہتا‘حالانکہ نہ تو وہ اس کے انگریزی لب و لہجے سے مرعوب ہوتا تھا اور نہ ہی عبد کو اس سے رابط بڑھانے کا کوئی شوق تھا۔
اس کے حلقہ احباب میں کوئی ایسی لڑکی نہیں تھی‘جو اتنی بولڈ اور مستقل مزاج بھی ہو۔ وہ پورے ایک سال سے اس پر نظر رکھے ہوئے تھی۔ اگرچہ اس نے عبد سے بات کرتے ہوئے کبھی نازیبا کلمات نہیں کہے تھے اور نہ ہی بدتمیزی کی تھی مگر عبد کو اس رانگ کالر سے شدید چڑ ہو گئی تھی۔ اس نے ہر طرح کا سراغ لگا کر دیکھ لیا تھا مگر ابھی تک وہ اس لڑکی تک پہنچ نہیں پایا تھا۔ نجانے وہ کون تھی اور اس سے کیا چاہتی ہے۔ تاہم اتنا تو وہ پر یقین تھا کہ لڑکی نہ تو اس کے خاندان سے ہے اور نہ ہی اس کے اردگرد رہنے والوں میں سے ہے۔ وہ اس کیلئے قطعاً انجان تھی۔
Shaqeel
26-Dec-2021 05:01 PM
Good
Reply
prashant pandey
15-Sep-2021 12:37 AM
👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻👍🏻
Reply
Rakhi mishra
08-Sep-2021 11:19 PM
💜💜💜💜💜
Reply